*❣قسط پر گاڑی خریدناکیسا؟؛❣*
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے ملت اسلامیہ
اس مسلہ کےبارے میں کہ آج کل لوگ موٹر سائیکل
شوروم میں قسط پر خریدتا ہے جس کی اصل قیمت(70) ہزار ہے اور قسط پر(80) ہزار روپے ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں یہ خریداری صحیح ہے
نوشاد عالم کٹیہاری؛
ا________((❣))_________ *الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب*
صورت مسؤلہ میں عرض یی ھیکہ قسطوں پر مارکیٹ والوں سے زیادہ قیمت پر شئ(چیزیں) بیچنا جائز ہے۔ جبکہ خریدنے والے کی رضا مندی سے ہو اور ادھار بیع متعین طور پر ہو یعنی مدت اور قسطیں مقرر ہوں اور اس بیع میں کوئی شرط فاسد ( یعنی قسط لیٹ ہونے کی صورت میں جرمانہ یا انشورنس کی شرط یا یہ شرط کہ اگر اتنے عرصے میں قسط ادا نہ کی گئیں تو پہلی رقم ضبط ہو جائے گی وغیرہ ) نہ ہو تو یہ بیع بلا کراہت جائز ہے کہ بیع میں ثمن کا معین کرنا ضروری ہے جب ثمن معین ہو گیا تو بیع جائز ہے چاہے نقد ہو یا ادھار، چاہے کم قیمت پر ہو یا زیادہ پر، کیونکہ بیچنے والے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز مہنگی بیچے یا سستی بیچے، خریدنے والے کی مرضی ہو تو لے لے نہ ہو تو چھوڑ دے۔ اور اگر کسی ایک صورت کو متعین نہیں کیا جاتا بلکہ مبہم رکھا جاتا ہے تو یہ بیع فاسد ہوگی جیسا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: یہ فعل اگرچہ نرخ بازار سے کیساہی تفاوت ہو حرام یا ناجائز نہیں کہ وہ مشتری پر جبر نہیں کرتا نہ اسے دھوکا دیتا ہے اور اپنے مال کاہر شخص کو اختیار ہے چاہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کو دے، مشتری کو غرض ہو لے، نہ ہو نہ لے۔
*(📙فی ردالمحتار لوباع کاغذہ بالف یجوز ولایکرہ وﷲ تعالٰی اعلم)*
*(📗ردالمحتار میں ہے)*
اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے، واللہ تعالٰی اعلم ۔ (ت)
*(📚 ردالمحتار کتاب الکفالۃ مطلب فی بیع العینۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۷۹)*
*(📚 فتاوی رضویہ جلد ۱۷ صفحہ ۹۷، ۹۸ رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
اور تحریر فرماتے ہیں: ہاں جائز ہے جبکہ دونوں حقیقۃً بیع کا ارادہ کریں نہ کہ قرض کا اس لئے کہ بیچنا جائز اور کمی بیشی جائز اور مدت معین پر ادھار جائز، جیسا کہ ہم سب باتوں کی تحقیق بیان کرآئے اور قسط بندی بھی ایک قسم کی مدت ہی معین کرنا ہے ، ہاں اگر دس کا نوٹ قرض دیا اور شرط کرلی کہ قرض لینے والا بارہ روپے یا گیارہ یا مثلاً ایک دوانی اوپر دس، اب یا کچھ مدت بعد قسط بندی سے یا بلا قسط واپس دے تو یہ ضرور حرام اور سود ہے اس واسطے کہ وہ ایک قرض ہے جس سے نفع حاصل کیا، اور بیشک ہمارے سردار رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو قرض کوئی نفع کھینچ کر لائے وہ سود ہے ۔ یہ حدیث حارث بن ابی اسامہ نے امیر المومنین علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ سے روایت کی بخلاف اس کے جبکہ قرض دیا اور کچھ زیادہ لینا شرط نہ کیا اور نہ ان کے اگلے عمل درآمد سے زیادہ لینا معروف تھا( کیونکہ جو معروف ہے وہ تو مثل شرط کے ہے ) پھر قرض لینے والے نے قرض ادا کیا اور اپنی طرف سے احساناً کچھ ایسا زیادہ دیا جو الگ ممتاز ہو ( یہ اس لئے کہ قابل تقسیم شے میں ہبہ مشاع نہ ہو جائے ) تو یہ جائز ہے اس میں کچھ حرج نہیں بلکہ اس قبیل سے ہے کہ احسان کا بدلہ کیا ہے سوا احسان کے۔
*(📚 فتاوی رضویہ جلد ۱۷ صفحہ ٤۹۳، ٤۹٤ رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
اور حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: بیع میں ثمن کا معین کرنا ضروری ہے
*(📚 درمختار میں ہے)*
*وشرط لصحتہ معرفۃ قدر مبیع وثمن)*
اور جب ثمن معین کر دیا جائے تو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار سب جائز ہے اور اسی میں ہے
صح بثمن حال ومؤجل الی معلوم
اور یہ بھی ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے زیادہ شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔ مگر صورت مسئولہ میں یہ ضرور ہے کہ نقد یا ادھار دونوں سے ایک صورت کو معین کرکے بیع کرے اور اگر معین نہ کیا یوہیں محمل رکھا کہ نقد اتنے کو ادھار اتنے کو تو یہ بیع فاسد ہوگی۔ اور ایسا کرنا جائز نہ ہوگا
*(📚 فتاوی عالمگیری میں ہے)*
*رجل باع علی انہ بالنقد بکذا وبالنسئیۃ بکذا او الی شھر بکذا او الی شھرین بکذا الم یجر کذافی الخلاصۃ)*
*(📚 فتاوی امجدیہ جلد ۳ ص ۱۸۱)*
*واللہ اعلم بالصواب؛*
ا________((🍅))_________
*کتبـــــہ؛*
*حضرت علامہ ومولانا محمد صادق رضا صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خطیب وامام شاھی جامع مسجد پٹنہ بہار الھند؛*
*۲۹/۱۲/۱۴۳۹/ ذوالحجہ؛*
*❣الحلقةالعلمیہ گروپ؛❣*
ا________((❤))_________
*المشتــــہر؛*
*منجانب؛منتظمین؛الحــــلقةالعـــــلمیہ گروپ؛محمد عقیــــل احمد قـــادری حنفی احمد آباد گجرات
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے ملت اسلامیہ
اس مسلہ کےبارے میں کہ آج کل لوگ موٹر سائیکل
شوروم میں قسط پر خریدتا ہے جس کی اصل قیمت(70) ہزار ہے اور قسط پر(80) ہزار روپے ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں یہ خریداری صحیح ہے
نوشاد عالم کٹیہاری؛
ا________((❣))_________ *الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب*
صورت مسؤلہ میں عرض یی ھیکہ قسطوں پر مارکیٹ والوں سے زیادہ قیمت پر شئ(چیزیں) بیچنا جائز ہے۔ جبکہ خریدنے والے کی رضا مندی سے ہو اور ادھار بیع متعین طور پر ہو یعنی مدت اور قسطیں مقرر ہوں اور اس بیع میں کوئی شرط فاسد ( یعنی قسط لیٹ ہونے کی صورت میں جرمانہ یا انشورنس کی شرط یا یہ شرط کہ اگر اتنے عرصے میں قسط ادا نہ کی گئیں تو پہلی رقم ضبط ہو جائے گی وغیرہ ) نہ ہو تو یہ بیع بلا کراہت جائز ہے کہ بیع میں ثمن کا معین کرنا ضروری ہے جب ثمن معین ہو گیا تو بیع جائز ہے چاہے نقد ہو یا ادھار، چاہے کم قیمت پر ہو یا زیادہ پر، کیونکہ بیچنے والے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز مہنگی بیچے یا سستی بیچے، خریدنے والے کی مرضی ہو تو لے لے نہ ہو تو چھوڑ دے۔ اور اگر کسی ایک صورت کو متعین نہیں کیا جاتا بلکہ مبہم رکھا جاتا ہے تو یہ بیع فاسد ہوگی جیسا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: یہ فعل اگرچہ نرخ بازار سے کیساہی تفاوت ہو حرام یا ناجائز نہیں کہ وہ مشتری پر جبر نہیں کرتا نہ اسے دھوکا دیتا ہے اور اپنے مال کاہر شخص کو اختیار ہے چاہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کو دے، مشتری کو غرض ہو لے، نہ ہو نہ لے۔
*(📙فی ردالمحتار لوباع کاغذہ بالف یجوز ولایکرہ وﷲ تعالٰی اعلم)*
*(📗ردالمحتار میں ہے)*
اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے، واللہ تعالٰی اعلم ۔ (ت)
*(📚 ردالمحتار کتاب الکفالۃ مطلب فی بیع العینۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۷۹)*
*(📚 فتاوی رضویہ جلد ۱۷ صفحہ ۹۷، ۹۸ رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
اور تحریر فرماتے ہیں: ہاں جائز ہے جبکہ دونوں حقیقۃً بیع کا ارادہ کریں نہ کہ قرض کا اس لئے کہ بیچنا جائز اور کمی بیشی جائز اور مدت معین پر ادھار جائز، جیسا کہ ہم سب باتوں کی تحقیق بیان کرآئے اور قسط بندی بھی ایک قسم کی مدت ہی معین کرنا ہے ، ہاں اگر دس کا نوٹ قرض دیا اور شرط کرلی کہ قرض لینے والا بارہ روپے یا گیارہ یا مثلاً ایک دوانی اوپر دس، اب یا کچھ مدت بعد قسط بندی سے یا بلا قسط واپس دے تو یہ ضرور حرام اور سود ہے اس واسطے کہ وہ ایک قرض ہے جس سے نفع حاصل کیا، اور بیشک ہمارے سردار رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو قرض کوئی نفع کھینچ کر لائے وہ سود ہے ۔ یہ حدیث حارث بن ابی اسامہ نے امیر المومنین علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ سے روایت کی بخلاف اس کے جبکہ قرض دیا اور کچھ زیادہ لینا شرط نہ کیا اور نہ ان کے اگلے عمل درآمد سے زیادہ لینا معروف تھا( کیونکہ جو معروف ہے وہ تو مثل شرط کے ہے ) پھر قرض لینے والے نے قرض ادا کیا اور اپنی طرف سے احساناً کچھ ایسا زیادہ دیا جو الگ ممتاز ہو ( یہ اس لئے کہ قابل تقسیم شے میں ہبہ مشاع نہ ہو جائے ) تو یہ جائز ہے اس میں کچھ حرج نہیں بلکہ اس قبیل سے ہے کہ احسان کا بدلہ کیا ہے سوا احسان کے۔
*(📚 فتاوی رضویہ جلد ۱۷ صفحہ ٤۹۳، ٤۹٤ رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
اور حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: بیع میں ثمن کا معین کرنا ضروری ہے
*(📚 درمختار میں ہے)*
*وشرط لصحتہ معرفۃ قدر مبیع وثمن)*
اور جب ثمن معین کر دیا جائے تو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار سب جائز ہے اور اسی میں ہے
صح بثمن حال ومؤجل الی معلوم
اور یہ بھی ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے زیادہ شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔ مگر صورت مسئولہ میں یہ ضرور ہے کہ نقد یا ادھار دونوں سے ایک صورت کو معین کرکے بیع کرے اور اگر معین نہ کیا یوہیں محمل رکھا کہ نقد اتنے کو ادھار اتنے کو تو یہ بیع فاسد ہوگی۔ اور ایسا کرنا جائز نہ ہوگا
*(📚 فتاوی عالمگیری میں ہے)*
*رجل باع علی انہ بالنقد بکذا وبالنسئیۃ بکذا او الی شھر بکذا او الی شھرین بکذا الم یجر کذافی الخلاصۃ)*
*(📚 فتاوی امجدیہ جلد ۳ ص ۱۸۱)*
*واللہ اعلم بالصواب؛*
ا________((🍅))_________
*کتبـــــہ؛*
*حضرت علامہ ومولانا محمد صادق رضا صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خطیب وامام شاھی جامع مسجد پٹنہ بہار الھند؛*
*۲۹/۱۲/۱۴۳۹/ ذوالحجہ؛*
*❣الحلقةالعلمیہ گروپ؛❣*
ا________((❤))_________
*المشتــــہر؛*
*منجانب؛منتظمین؛الحــــلقةالعـــــلمیہ گروپ؛محمد عقیــــل احمد قـــادری حنفی احمد آباد گجرات
No comments:
Post a Comment