سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
فلما رأی حرص رسول اللہ ﷺ علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ ﷺ : لم أسمع.
“جب ابو طالب نے اپنے( ایمان کے) بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حرص دیکھی تو کہا: اے بھتیجے ! اللہ کی قسم، اگر مجھے اپنے بعد آپ اور آپ کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ ﷺ سے ) کہا: اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا۔”
(السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸، المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸، دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)
سخت ضعیف: یہ روایت سخت”ضعیف” ہے ،کیونکہ:
٭ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے۔” (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)
٭حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔”الخ ، یہ سند منقطع ہے۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “إن في السند مبھما لا یعرف حاله، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد…….. و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ”
اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا
ہے۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “بسند فیه لم یسم…… و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح.”
یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا…. اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)
٭علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد.”
اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)
ابو طالب کے بارے میں صحیح روایات:
٭ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں: “رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے کہا: آپ لا اٰلہ الا اللہ کہہ دیں۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ اُنہوں نے جواب دیا: اگر مجھے قریش طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے آمادہ کردیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: ﴿یقینا جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ جسے اللہ چاہے ہدایت عطا فرمادیتا ہے۔ القصص: ۵۶﴾ ” (صحیح مسلم: ۲۵)
٭ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: “اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے جو ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ۔ وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے دوسروں سے غصے ہوجایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! (میں نے انہیں فائدہ پہنچایا ہے) وہ اب بالائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔” (صحیح البخاری:۳۸۸۳، صحیح مسلم: ۲۰۹)
٭سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: “انہوں نے نبیٔ اکرم ﷺ کو سنا۔ آپ کے پاس آپ کے چچا (ابو طالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شاید کہ اُن کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور اُن کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صر ف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) اُن کا دماغ کھولے گا۔” (صحیح البخاری: ۳۸۸۵، صحیح مسلم: ۲۱۰)
٭سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھول رہا ہوگا۔” (صحیح مسلم: ۲۱۲)
٭خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں: “جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے چچا فوت ہوگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاکر دفنا دیں۔ میں نے عرض کی: یقینا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں نے ایسا کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔” (مسند الطیالسی: ص ۱۹،ح۱۲۰ وسندہ حسن متصل)
ایک روایت کے الفاظ ہیں: “سیدنا علی رضی اللہ نے عرض کی: آپ کے گمراہ چچا فوت ہوگئے ہیں۔ ان کو کون دفنائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔” (مسند الامام احمد: ۹۷/۱، سنن ابی داؤد: ۳۲۱۴، سنن النسائی: ۱۹۰، ۲۰۰۸، واللفظ له، و سندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (کما في الاصابة لابن حجر: ۱۱۴/۷) اور امام ابن جارود رحمہما اللہ (۵۵۰) نے “صحیح” قرار دیا ہے۔
یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ تک نہیں پڑھی۔
٭سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو: “عقیل اور طالب دونوں ابو طالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہیں لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔ ” (صحیح البخاری: ۱۵۸۸، صحیح مسلم: ۱۶۱۴ مختصراً)
یہ روایت بھی بیّن دلیل ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اُن کے وارث نہیں نے کیونکہ نبیٔ اکرم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: “نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔” (صحیح البخاری: ۶۷۶۴، صحیح مسلم: ۱۶۱۴)
ابو طالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ یقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو پائے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود دُعاگو نہیں ہوسکتے۔
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کا ذکر نے کے بعد لکھتے ہیں: “اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابو طالب کیلئے استغفار کرتے اور اُن کیلئے رحم کی دُعا بھی کرتے!” (سیرۃ الرسول لابن کثیر: ۱۳۲/۲)
فلما رأی حرص رسول اللہ ﷺ علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ ﷺ : لم أسمع.
“جب ابو طالب نے اپنے( ایمان کے) بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حرص دیکھی تو کہا: اے بھتیجے ! اللہ کی قسم، اگر مجھے اپنے بعد آپ اور آپ کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ ﷺ سے ) کہا: اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا۔”
(السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸، المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸، دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)
سخت ضعیف: یہ روایت سخت”ضعیف” ہے ،کیونکہ:
٭ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے۔” (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)
٭حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔”الخ ، یہ سند منقطع ہے۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “إن في السند مبھما لا یعرف حاله، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد…….. و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ”
اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا
ہے۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)
٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “بسند فیه لم یسم…… و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح.”
یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا…. اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)
٭علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد.”
اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)
ابو طالب کے بارے میں صحیح روایات:
٭ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں: “رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے کہا: آپ لا اٰلہ الا اللہ کہہ دیں۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ اُنہوں نے جواب دیا: اگر مجھے قریش طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے آمادہ کردیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: ﴿یقینا جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ جسے اللہ چاہے ہدایت عطا فرمادیتا ہے۔ القصص: ۵۶﴾ ” (صحیح مسلم: ۲۵)
٭ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: “اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے جو ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ۔ وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے دوسروں سے غصے ہوجایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! (میں نے انہیں فائدہ پہنچایا ہے) وہ اب بالائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔” (صحیح البخاری:۳۸۸۳، صحیح مسلم: ۲۰۹)
٭سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: “انہوں نے نبیٔ اکرم ﷺ کو سنا۔ آپ کے پاس آپ کے چچا (ابو طالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شاید کہ اُن کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور اُن کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صر ف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) اُن کا دماغ کھولے گا۔” (صحیح البخاری: ۳۸۸۵، صحیح مسلم: ۲۱۰)
٭سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھول رہا ہوگا۔” (صحیح مسلم: ۲۱۲)
٭خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں: “جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے چچا فوت ہوگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاکر دفنا دیں۔ میں نے عرض کی: یقینا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں نے ایسا کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔” (مسند الطیالسی: ص ۱۹،ح۱۲۰ وسندہ حسن متصل)
ایک روایت کے الفاظ ہیں: “سیدنا علی رضی اللہ نے عرض کی: آپ کے گمراہ چچا فوت ہوگئے ہیں۔ ان کو کون دفنائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔” (مسند الامام احمد: ۹۷/۱، سنن ابی داؤد: ۳۲۱۴، سنن النسائی: ۱۹۰، ۲۰۰۸، واللفظ له، و سندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (کما في الاصابة لابن حجر: ۱۱۴/۷) اور امام ابن جارود رحمہما اللہ (۵۵۰) نے “صحیح” قرار دیا ہے۔
یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ تک نہیں پڑھی۔
٭سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو: “عقیل اور طالب دونوں ابو طالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہیں لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔ ” (صحیح البخاری: ۱۵۸۸، صحیح مسلم: ۱۶۱۴ مختصراً)
یہ روایت بھی بیّن دلیل ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اُن کے وارث نہیں نے کیونکہ نبیٔ اکرم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: “نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔” (صحیح البخاری: ۶۷۶۴، صحیح مسلم: ۱۶۱۴)
ابو طالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ یقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو پائے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود دُعاگو نہیں ہوسکتے۔
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کا ذکر نے کے بعد لکھتے ہیں: “اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابو طالب کیلئے استغفار کرتے اور اُن کیلئے رحم کی دُعا بھی کرتے!” (سیرۃ الرسول لابن کثیر: ۱۳۲/۲)
No comments:
Post a Comment