( گرامی قدرقبلہ پروفیسر علامہ عون محمد صاحب زید مجدہ کی زبانی ان اشعار کی تشریح)
👇🏻👇🏻👇🏻
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
تحقیق کے مطابق یہ رباعی حضرت معین الدین چشتی کی نہیں ہے. پھر یہ کس شاعر کی ہے؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں.
البتہ مفہوم کے اعتبار سے یہ بالکل درست ہے. جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں.
اس کا مفہوم حسب ذیل ہے.
امام حسین قلوب امت کے سردار و بادشاہ ہیں.
دین میں ایسے مستغرق ہیں کہ سرتاپا خود دین ہیں، دین نے اپنے تحفظ کے لیے آپ ہی کے دامن میں پناہ لی.
سر تو دے دیا مگر یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیا.
حق تو یہ ہے کہ آپ لا الہ الا اللہ کی بنیاد ٹھہرے.
یہاں بناء بمعنی عمارت ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یزید کے ہاتھوں اسلام کی منہدم ہوتی عمارت کو اپنا خون دے کر دوبارہ تعمیر کر دیا..
اور اگر بناء بمعنی بنیاد ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ
اپنا سب کچھ لٹا کر اسے بنیاد فراہم کر دی.
دراصل موروثی جانشینی اور فسق و فجور کی حکومت کا آغاز تاریخ اسلام میں پہلی بار ہو رہا تھا ، اب اس موقع پر اہل اسلام کا رد عمل کیا ہو، یہ کسی صاحب عزیمت کا اپنے عمل سے ثابت کرنا ضروری تھا، تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن جائے کہ غلط نظام حکومت کے سامنے کس قسم کا کردار پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.
یہی کام سیدنا امام حسین نے کر دکھایا اور اپنے جد اعلی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح باطل کے بت کدے میں جرات رندانہ کے ساتھ گھس کر اسے تہس نہس کر کے بتا دیا کہ جب بھی یزیدی نظام حکومت دیکھو تو اس کے خلاف حسینی انداز کی جد و جہد کا آغاز کرو.
اگرچہ فسق و فجور کی حکومتوں کا سلسلہ یزید کے بعد بھی جاری رہا مگر حسینی طرز عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ فکر ونظر ہمیشہ اس کو خلاف اسلام سمجھتی چلی آ رہی ہے. یقیناً یہ فکر و نظر حضرت امام کی عظیم قربانی کا ثمر ہے.
اگر اس وقت آپ یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر موروثی اور فسق وفجور کی حکومت پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے تو پھر اس اسلام کش عمل کو قیامت تک کے لیے سند جواز فراہم ہو جاتی، جو کہ اب کسی بھی طور پر کسی بھی باطل حکومت کے پاس نہیں ہے .
.
آج کوئی بھی شخص سر بازار کھڑے ہو کر یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ "میں یزیدی ہوں" مگر سینہ تان کر فخر کے ساتھ یہ بات بے جھجھک کہہ سکتا ہے کہ "میں حسینی ہوں"
یہ ہے دین کی وہ بنیاد جو ہمیں حسین نے فراہم کی ہے. یقیناً سیدنا امام حسین کی اس عظیم ترین خدمت پر امت ہمیشہ کے لیے آپ کے زیر بار ہے بقول سید نصیر الدین نصیر:
حجت تمام کر گیا ہے شبیر
آفاق میں نام کر گیا ہے شبیر
تا حشر نہیں جواب جس کا ممکن
سر دے کے وہ کام کر گیا ہے شبیر
(پروفیسرعون محمد سعیدی مصطفوی)
*🌹شاہ است حسین الخ مذکورہ رباعی پر چند اعتراضات کے جوابات*🌹
(ایک انتہائی ضروری بات جو سب کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے)
آج کل یہ اشعار اکثر محافل میں پڑھے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اشعار خواجہ غریب نواز نے لکھے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اشعار خواجہ غریب نواز کے کلام کے ہے ہی نہیں اور پھر اس کے چوتھے شعر کا معنٰی ہی کُفریہ ہے جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اللّٰہ کی توحید کا بانی حُسین ہے (اَستَغفِرُ اللّٰہ)
عظیم مُحدّث شاہ عبدالعزیز مُحدّثِ دہلوی (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) اپنی تصنیف '' تُحفہ اثناء عشریہ '' صفحہ نمبر 106 پر یہ لکھ چُکے ہیں کہ " شاہ اَست حُسین بادشاہ اَست حُسین '' یہ خواجہ غریب نواز کا کلام نہیں ہے اور وہ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ غریب نواز ہو کر اتنی کُفریہ بات نہیں کرسکتے۔ یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری کے ہیں جو شیعہ تھا، اب اہلِ سنت نادانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اور ہند غریب نواز کے جو ملفوظات ہیں وہ ہشت بہشت میں خواجہ بختیار کاکی (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) نے قلمبند کر دئیے ہیں اُن میں یہ شعر نہیں ہے خواجہ غریب نواز (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) نے خود کوئی کتاب لکھی ہی نہیں ہے۔
اور پھر اس شعر کا معنٰی ہی غلط ہے ''حقّا کہ بِنائے لَااِلٰہٰ اَست حُسین '' اس کا معنٰی یہ ہے کہ خدا کی بنیاد حُسین ہے، لَااِلٰہٰ کی بنیاد حُسین ہے (ثُمَّ مَعَاذَ اللّٰہ) اس کا مفہوم پھر یہی بنا کہ حُسین اللّٰہ کی بنیاد ہے حُسین پہلے ہے اور اللّٰہ بعد میں ہے (اَستَغفِرُ اللّٰہ) تو یہ اسلام ہے یا کُفر؟ یقیناََ یہ کُفر ہے۔
ہم سب کو چاہیے کہ یہ اشعار نہ پڑھیں اور باقی لوگوں کو بھی اس کی حقیقت بتائیں خصوصاََ ہمارے نعت خواں حضرات اور نقیب حضرات کو بھی یہ اشعار نہیں پڑھنے چاہیے۔
اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں تاکہ سب کی اصلاح ہو سکے۔
جزاک اللّٰہ
*🌹سـائــل غــلام مـصـطفی*🌹
*◆ــــــــــــــ🌹💠🌹ـــــــــــــــــ◆*
*📝الجواب: بعون الملک الوہاب*
*اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں: جاہل کی جہالت عذر نہیں سائل نے یہاں جاہل اور عالم میں فرق دکھا کر بلا وجہ قابلیت جتائی ہے وہ شعر جس کا بھی ہو اس میں ضرورت شعری کی وجہ سے پورا کلمہ طیبہ مذکور نہیں ہے مگر جاہل کے سامنے کیا ضرورت تھی جس کے باعث اس نے لاالہ پر اقتصار کیا اس کا بلا ضرورت لاالہ پر اقتصار کرنا جہالت ہے کیونکہ صرف اتنے کلمہ کا معنی یقیناً قبیح بلکہ اس کی حقیقت پر نظر کی جائے تو کفر ہے مگر جاہل کی مراد ہرگز وہ معنی نہیں قبیح و کفر نہیں ہوتا اس لئے اس پر حکم کفر نہ ہوگا۔*
📚 *فتاوی بزازیہ النوع الحادی عشر فیما یکون خطا میں ہے*
*🏷من قال لاالہ واردان یقول الااللہ ولم یتکلم بہ لا یکفر لانہ معتقد للایمان اما اذالم یخطر ببالہ الاثبات وارد النفی فقط فھو کافر، اھ*
📚 *جلد ٦ صفحہ ۳٤۷*
*🥠شعر مذکورہ خواجہ صاحب کا ہے یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن اس کا مفہوم درست ہے شعری کی وجہ سے اگر اس میں لاالہ پر اقتصار درست ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلا ضرورت بھی یہ اقتصار درست ہو ضرورت شعری اس پر دال ہے کہ قائل کی مراد یقیناً پورا کلمہ ہے سیاق کلام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ معاذ اللہ اگر نفی محض مراد ہوتو دین اور دین پناہ ہونے کے بجائے اس کا عکس ہو جائے گا- اور جب نفی محض مراد نہیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نفی محض کی بنیاد کہاں ہوئے کہ توہین کا سوال پیدا ہو*
*مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے حق کی بنیاد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں کلمہ طیبہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے اور اسے سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا جانشین نہ تسلیم کیا جائے یقیناً اس حق کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کامل طور سے پورا کیا اور یزید پلید کی مٹی پلید کرکے حق کلمہ طیبہ کی لاج رکھ لی اور معنی کے لحاظ سے آپ کو دیں پناہ کہا گیا حدیث شریف میں ہے*
*🍢من قال لاالہ الااللہ دخل الجنۃ*
*اس کی تصریح میں علماء فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کلمہ پڑھا اور ساتھ ہی اس کا حق بھی ادا کیا مثلاً ارکان اسلام کی* *بجاآوری کی نواہی سے بچا وہ اس بشارت کا حقدار ہے یونہی مذکورہ مصرعہ میں کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ طیبہ کا حق ہے پھر یہ بات دور یزید کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہے جیسا کہ اس طرح کے کلام عموماً ایک مخصوص دور کے لئے ہی کہے جاتے ہیں اس لئے السبقون الاولون اس میں شامل نہیں*
*اسی وجہ سے کہ الااللہ اس کے ذہن میں ہو سکتا ہے بلکہ ایک مسلمان سے یہی متصور ہے حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ نے محض قبیح فرمایا کافر نہیں کہا کسی قول کا کفر ہونا الگ چیز ہے اور اس کے قائل کا کافر ہونا الگ چیز۔ کیوں کہ معاذ اللہ اگر الااللہ اس کے ذہن و دل میں نہ ہو تو وہ کافر ہو جائے گا جیسا کہ فتاوی بزازیہ کے درج بالا جزیہ سے ظاہر ہے*
📚 *فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ٦۲۳، ٦۲٤*
*🌹واللہ اعلم با لصواب*🌹
*◆ــــــــــــــ🌹💠🌹ـــــــــــــــــ◆*
*✍شــرف قلم محمــد شـــاہد رضــا قادری صــاحـب قــبلہ مـد ظـلـہ العــالی والـنــورانـی محمـدآباد گوہنہ ضلع مئو*
👇🏻👇🏻👇🏻
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
تحقیق کے مطابق یہ رباعی حضرت معین الدین چشتی کی نہیں ہے. پھر یہ کس شاعر کی ہے؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں.
البتہ مفہوم کے اعتبار سے یہ بالکل درست ہے. جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں.
اس کا مفہوم حسب ذیل ہے.
امام حسین قلوب امت کے سردار و بادشاہ ہیں.
دین میں ایسے مستغرق ہیں کہ سرتاپا خود دین ہیں، دین نے اپنے تحفظ کے لیے آپ ہی کے دامن میں پناہ لی.
سر تو دے دیا مگر یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیا.
حق تو یہ ہے کہ آپ لا الہ الا اللہ کی بنیاد ٹھہرے.
یہاں بناء بمعنی عمارت ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یزید کے ہاتھوں اسلام کی منہدم ہوتی عمارت کو اپنا خون دے کر دوبارہ تعمیر کر دیا..
اور اگر بناء بمعنی بنیاد ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ
اپنا سب کچھ لٹا کر اسے بنیاد فراہم کر دی.
دراصل موروثی جانشینی اور فسق و فجور کی حکومت کا آغاز تاریخ اسلام میں پہلی بار ہو رہا تھا ، اب اس موقع پر اہل اسلام کا رد عمل کیا ہو، یہ کسی صاحب عزیمت کا اپنے عمل سے ثابت کرنا ضروری تھا، تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن جائے کہ غلط نظام حکومت کے سامنے کس قسم کا کردار پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.
یہی کام سیدنا امام حسین نے کر دکھایا اور اپنے جد اعلی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح باطل کے بت کدے میں جرات رندانہ کے ساتھ گھس کر اسے تہس نہس کر کے بتا دیا کہ جب بھی یزیدی نظام حکومت دیکھو تو اس کے خلاف حسینی انداز کی جد و جہد کا آغاز کرو.
اگرچہ فسق و فجور کی حکومتوں کا سلسلہ یزید کے بعد بھی جاری رہا مگر حسینی طرز عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ فکر ونظر ہمیشہ اس کو خلاف اسلام سمجھتی چلی آ رہی ہے. یقیناً یہ فکر و نظر حضرت امام کی عظیم قربانی کا ثمر ہے.
اگر اس وقت آپ یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر موروثی اور فسق وفجور کی حکومت پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے تو پھر اس اسلام کش عمل کو قیامت تک کے لیے سند جواز فراہم ہو جاتی، جو کہ اب کسی بھی طور پر کسی بھی باطل حکومت کے پاس نہیں ہے .
.
آج کوئی بھی شخص سر بازار کھڑے ہو کر یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ "میں یزیدی ہوں" مگر سینہ تان کر فخر کے ساتھ یہ بات بے جھجھک کہہ سکتا ہے کہ "میں حسینی ہوں"
یہ ہے دین کی وہ بنیاد جو ہمیں حسین نے فراہم کی ہے. یقیناً سیدنا امام حسین کی اس عظیم ترین خدمت پر امت ہمیشہ کے لیے آپ کے زیر بار ہے بقول سید نصیر الدین نصیر:
حجت تمام کر گیا ہے شبیر
آفاق میں نام کر گیا ہے شبیر
تا حشر نہیں جواب جس کا ممکن
سر دے کے وہ کام کر گیا ہے شبیر
(پروفیسرعون محمد سعیدی مصطفوی)
*🌹شاہ است حسین الخ مذکورہ رباعی پر چند اعتراضات کے جوابات*🌹
(ایک انتہائی ضروری بات جو سب کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے)
آج کل یہ اشعار اکثر محافل میں پڑھے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اشعار خواجہ غریب نواز نے لکھے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اشعار خواجہ غریب نواز کے کلام کے ہے ہی نہیں اور پھر اس کے چوتھے شعر کا معنٰی ہی کُفریہ ہے جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اللّٰہ کی توحید کا بانی حُسین ہے (اَستَغفِرُ اللّٰہ)
عظیم مُحدّث شاہ عبدالعزیز مُحدّثِ دہلوی (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) اپنی تصنیف '' تُحفہ اثناء عشریہ '' صفحہ نمبر 106 پر یہ لکھ چُکے ہیں کہ " شاہ اَست حُسین بادشاہ اَست حُسین '' یہ خواجہ غریب نواز کا کلام نہیں ہے اور وہ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ غریب نواز ہو کر اتنی کُفریہ بات نہیں کرسکتے۔ یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری کے ہیں جو شیعہ تھا، اب اہلِ سنت نادانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اور ہند غریب نواز کے جو ملفوظات ہیں وہ ہشت بہشت میں خواجہ بختیار کاکی (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) نے قلمبند کر دئیے ہیں اُن میں یہ شعر نہیں ہے خواجہ غریب نواز (رَحمَتُہ اللّٰہِ عَلَیہ) نے خود کوئی کتاب لکھی ہی نہیں ہے۔
اور پھر اس شعر کا معنٰی ہی غلط ہے ''حقّا کہ بِنائے لَااِلٰہٰ اَست حُسین '' اس کا معنٰی یہ ہے کہ خدا کی بنیاد حُسین ہے، لَااِلٰہٰ کی بنیاد حُسین ہے (ثُمَّ مَعَاذَ اللّٰہ) اس کا مفہوم پھر یہی بنا کہ حُسین اللّٰہ کی بنیاد ہے حُسین پہلے ہے اور اللّٰہ بعد میں ہے (اَستَغفِرُ اللّٰہ) تو یہ اسلام ہے یا کُفر؟ یقیناََ یہ کُفر ہے۔
ہم سب کو چاہیے کہ یہ اشعار نہ پڑھیں اور باقی لوگوں کو بھی اس کی حقیقت بتائیں خصوصاََ ہمارے نعت خواں حضرات اور نقیب حضرات کو بھی یہ اشعار نہیں پڑھنے چاہیے۔
اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں تاکہ سب کی اصلاح ہو سکے۔
جزاک اللّٰہ
*🌹سـائــل غــلام مـصـطفی*🌹
*◆ــــــــــــــ🌹💠🌹ـــــــــــــــــ◆*
*📝الجواب: بعون الملک الوہاب*
*اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں: جاہل کی جہالت عذر نہیں سائل نے یہاں جاہل اور عالم میں فرق دکھا کر بلا وجہ قابلیت جتائی ہے وہ شعر جس کا بھی ہو اس میں ضرورت شعری کی وجہ سے پورا کلمہ طیبہ مذکور نہیں ہے مگر جاہل کے سامنے کیا ضرورت تھی جس کے باعث اس نے لاالہ پر اقتصار کیا اس کا بلا ضرورت لاالہ پر اقتصار کرنا جہالت ہے کیونکہ صرف اتنے کلمہ کا معنی یقیناً قبیح بلکہ اس کی حقیقت پر نظر کی جائے تو کفر ہے مگر جاہل کی مراد ہرگز وہ معنی نہیں قبیح و کفر نہیں ہوتا اس لئے اس پر حکم کفر نہ ہوگا۔*
📚 *فتاوی بزازیہ النوع الحادی عشر فیما یکون خطا میں ہے*
*🏷من قال لاالہ واردان یقول الااللہ ولم یتکلم بہ لا یکفر لانہ معتقد للایمان اما اذالم یخطر ببالہ الاثبات وارد النفی فقط فھو کافر، اھ*
📚 *جلد ٦ صفحہ ۳٤۷*
*🥠شعر مذکورہ خواجہ صاحب کا ہے یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن اس کا مفہوم درست ہے شعری کی وجہ سے اگر اس میں لاالہ پر اقتصار درست ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلا ضرورت بھی یہ اقتصار درست ہو ضرورت شعری اس پر دال ہے کہ قائل کی مراد یقیناً پورا کلمہ ہے سیاق کلام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ معاذ اللہ اگر نفی محض مراد ہوتو دین اور دین پناہ ہونے کے بجائے اس کا عکس ہو جائے گا- اور جب نفی محض مراد نہیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نفی محض کی بنیاد کہاں ہوئے کہ توہین کا سوال پیدا ہو*
*مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے حق کی بنیاد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں کلمہ طیبہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے اور اسے سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا جانشین نہ تسلیم کیا جائے یقیناً اس حق کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کامل طور سے پورا کیا اور یزید پلید کی مٹی پلید کرکے حق کلمہ طیبہ کی لاج رکھ لی اور معنی کے لحاظ سے آپ کو دیں پناہ کہا گیا حدیث شریف میں ہے*
*🍢من قال لاالہ الااللہ دخل الجنۃ*
*اس کی تصریح میں علماء فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کلمہ پڑھا اور ساتھ ہی اس کا حق بھی ادا کیا مثلاً ارکان اسلام کی* *بجاآوری کی نواہی سے بچا وہ اس بشارت کا حقدار ہے یونہی مذکورہ مصرعہ میں کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ طیبہ کا حق ہے پھر یہ بات دور یزید کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہے جیسا کہ اس طرح کے کلام عموماً ایک مخصوص دور کے لئے ہی کہے جاتے ہیں اس لئے السبقون الاولون اس میں شامل نہیں*
*اسی وجہ سے کہ الااللہ اس کے ذہن میں ہو سکتا ہے بلکہ ایک مسلمان سے یہی متصور ہے حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ نے محض قبیح فرمایا کافر نہیں کہا کسی قول کا کفر ہونا الگ چیز ہے اور اس کے قائل کا کافر ہونا الگ چیز۔ کیوں کہ معاذ اللہ اگر الااللہ اس کے ذہن و دل میں نہ ہو تو وہ کافر ہو جائے گا جیسا کہ فتاوی بزازیہ کے درج بالا جزیہ سے ظاہر ہے*
📚 *فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ٦۲۳، ٦۲٤*
*🌹واللہ اعلم با لصواب*🌹
*◆ــــــــــــــ🌹💠🌹ـــــــــــــــــ◆*
*✍شــرف قلم محمــد شـــاہد رضــا قادری صــاحـب قــبلہ مـد ظـلـہ العــالی والـنــورانـی محمـدآباد گوہنہ ضلع مئو*
No comments:
Post a Comment