🌅🌅🌅🌅🌅🌅🌅🌅🌅🌅🌅
*💚شاہ است حسین بادشاہ است حسین کس کی رباعی ہے💚*
*❓❓کیا یہ بات صحیح ہے کہ یہ بات کی کوئی اصل نہیں ہے یا یہ کوئی کتابوں میں نہیں ملتا ہے کہ یہ شعر حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کا ہے۔👇*
*شاہ است حسین بادشاہ است حسین*
*دین است حسین دین پناہ است حسین*
*🌹سائل محمد اسلم رضا*
↕⏬↕⏬↕⏬↕⏬↕⏬⏬
*الــــجـــواب جواب بعون الملک الوھاب*
*باوجود تتبع تام واستقراء حتی الامکان کے تاہنوز حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ یا ان کے سلسلے کے یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کی تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں ہے*
*قصاص قسم کے واعظین بڑے طمطراق سے اسے حضرت غریب نواز کی طرف منسوب کرتے ہیں*
*میں نے ان قصاصین سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے تو اب تک کوئی بھی اس کی سند نہیں پیش کرسکا*
*کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا*
*کسی نے اور کسی واعظ کا حوالہ دیا*
*حد یہ ہے کہ غریب تواز قدس سرہ کی طرف ایک دیوان منسوب ہے*
*اس میں بھی یہ رباعی نہیں ہے*
*غرض کہ اب تک یہ ثابت نہیں کہ حضرت سلطان الہند رضی اللہ عنہ کی رباعی ہے*
*حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ کے آستانہ عالیہ پر میں نے یہ رباعی کہیں کندہ نہیں دیکھی*
*ہوسکتا ہے کہ کندہ ہو*
*میں نے دسوں بار کی حاضری کے باوجود کتبات پڑھنے کی کوشش نہیں کی میرا ذوق یہ ہے کہ جتنی دیر کتبات کے پڑھنے میں مصروف رہوں اتنی دیر مواجہہ اقدس میں کیوں نہ وقت گزاروں*
*اور اگر بالفرض یہ رباعی وہاں کندہ ہو بھی تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ رباعی حضرت کی ہے*
*گنبد پاک اگر چہ حضرت سلطان الطارکین صوفی حمید الدین ناگوری قدس سرہ نے بنوایا*
*مگر بعد میں بہت اضافے ہوے ہیں*
*کیا پتہ کس نے یہ رباعی لکھوائی ہے*
*یہ صحیح ہے کہ رفاض نے دسیسہ کاری کرکے دیوان حافظ اور مثنوی شریف میں بہت کچھ الحاقات کردیئے ہیں*
*حضرت شیخ محقق کی اس وقت تک پچیس تصانیف کا مطالعہ کرچکا ہوں کہیں بھی اس رباعی کا ذکر نہیں ہے*
*واللہ اعلم بـالصـواب*
*📚فــتــــاوی شـــارح بــخــــاری جـلــد دوم ص٢٠٤*
*٣ محرم الحرام ١٤٤٠ ہجری مطابق ١٤ ستمبر ٢٠١٨ بروز جمعہ*
✅✅✅✅✅✅✅✅✅✅✅
*✍🏼ازقـــــلــم حضـــرت علامــــہ ومولانـــا*
*محمـــد اسمــاعیـل خـان امجـدی صاحـب*
*قبلــــہ مدظلــــہ العـــالــٰـی والنـــــورانــــی*
*دارالـــعـلـــــــــوم شـہـیــــــــداعـظــــــــــم*
*دولـھـــــــاپورضـلـــــع گـونــــــڈہ یـوپــــی*
✳️برکاتی عفی عنہ❇️:
"شاہ است حسین، بادشاہ است حسین" کس کی رباعی ہے؟
یہ اشعار (شاہ است حسین، بادشاہ است حسین... الخ) کثرت سے پڑھے جاتے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی رباعی ہے-
صرف مشہور ہونے کی بنا پر کسی بات کو کسی کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہے اور اس رباعی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، چناں چہ:
خلیفۂ حضور مفتئ اعظمِ ہند، شارح بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس رباعی کے متعلق لکھتے ہیں کہ حتی الامکان چھان بین کے باوجود یہ نتیجہ نکلا کہ حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ یا ان کے سلسلے کے بزرگوں یا ہندستان کے معتمد مصنفین کی تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں- مقررین اسے حضور خواجہ غریب نواز کی طرف منسوب کرتے ہیں؛ مَیں نے ان سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے تو اب تک کوئی بھی اس کی سند پیش نہیں کر سکا- کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا تو کسی نے کسی واعظ کا حوالہ دیا- حد یہ ہے کہ حضور خواجہ غریب نواز کی طرف ایک دیوان منسوب ہے اور اس میں بھی یہ رباعی نہیں- اب تک یہ ثابت نہیں کہ رباعی حضور خواجہ غریب نواز کی ہے-
(ملخصاً: فتاوی شارح بخاری، ج2، ص204، دائرۃ البرکات گھوسی)
حضرت علامہ مفتی فیض محمد قادری مصباحی صاحب (فتاوی مرکز تربیت افتا میں) ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ اشعار حضور خواجہ غریب نواز کے ہیں، یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن اس کا مفہوم درست ہے-
(انظر: فتاوی مرکز تربیت افتا، ج2، ص623، فقیہ ملت اکیڈمی اوجھا گنج)
حضرت علامہ مفتی محمد مقصود عالم صاحب قبلہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ اشعار حضور خواجہ اجمیری کے ہیں یا نہیں لیکن اس کی صحت (یعنی اس کے صحیح ہونے میں) کسی کا اختلاف نہیں؛ مقبولیت بھی کافی ہے اور شہرت کی بنیاد پر سلطان الہند علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرنا بھی درست ہے-
("تاج الشریعہ لقب کس کا؟"، ص8)
مفتی مقصود صاحب قبلہ کے اس جملے سے مجھے اتفاق نہیں کہ "شہرت کی بنیاد پر سلطان الہند کی طرف منسوب کرنا بھی درست ہے" کیوں کہ مشہور ہونا تو دور کی بات ہے، بہ قول حضرت عبدالعزیز رحمہ اللہ کسی امام سے منسوب کسی مسئلے کا ایک یا ہزار کتاب میں پایا جانا بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ قول واقعی ان ہی کا قول ہے-
(انظر: الابریز من کلام سیدی عبدالعزیز، ص430، دار صادر بیروت؛ بہ حوالہ تحریرات علامہ لقمان شاہد حفظہ اللہ)
اسے لکھنے کے بعد علامہ لقمان شاہد صاحب قبلہ لکھتے ہیں کہ ہمارے وہ خطبا و واعظین جو "ہر بات" پر یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ فلاں فلاں کتاب میں ہے، فلاں فلاں نے لکھا ہے، انھیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے-
بہت ساری ایسی باتیں بھی ہیں جو بہت ساری کتابوں میں ہونے کے باوجود، وجود نہیں رکھتیں- اس لیے علم و تحقیق کا دامن تھامے رکھنے میں ہی عافیت ہے-
میں کہتا ہوں کہ اس رباعی کو پڑھا جائے لیکن اسے حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی طرف منسوب نہ کیا جائے-
*💚شاہ است حسین بادشاہ است حسین کس کی رباعی ہے💚*
*❓❓کیا یہ بات صحیح ہے کہ یہ بات کی کوئی اصل نہیں ہے یا یہ کوئی کتابوں میں نہیں ملتا ہے کہ یہ شعر حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کا ہے۔👇*
*شاہ است حسین بادشاہ است حسین*
*دین است حسین دین پناہ است حسین*
*🌹سائل محمد اسلم رضا*
↕⏬↕⏬↕⏬↕⏬↕⏬⏬
*الــــجـــواب جواب بعون الملک الوھاب*
*باوجود تتبع تام واستقراء حتی الامکان کے تاہنوز حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ یا ان کے سلسلے کے یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کی تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں ہے*
*قصاص قسم کے واعظین بڑے طمطراق سے اسے حضرت غریب نواز کی طرف منسوب کرتے ہیں*
*میں نے ان قصاصین سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے تو اب تک کوئی بھی اس کی سند نہیں پیش کرسکا*
*کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا*
*کسی نے اور کسی واعظ کا حوالہ دیا*
*حد یہ ہے کہ غریب تواز قدس سرہ کی طرف ایک دیوان منسوب ہے*
*اس میں بھی یہ رباعی نہیں ہے*
*غرض کہ اب تک یہ ثابت نہیں کہ حضرت سلطان الہند رضی اللہ عنہ کی رباعی ہے*
*حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ کے آستانہ عالیہ پر میں نے یہ رباعی کہیں کندہ نہیں دیکھی*
*ہوسکتا ہے کہ کندہ ہو*
*میں نے دسوں بار کی حاضری کے باوجود کتبات پڑھنے کی کوشش نہیں کی میرا ذوق یہ ہے کہ جتنی دیر کتبات کے پڑھنے میں مصروف رہوں اتنی دیر مواجہہ اقدس میں کیوں نہ وقت گزاروں*
*اور اگر بالفرض یہ رباعی وہاں کندہ ہو بھی تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ رباعی حضرت کی ہے*
*گنبد پاک اگر چہ حضرت سلطان الطارکین صوفی حمید الدین ناگوری قدس سرہ نے بنوایا*
*مگر بعد میں بہت اضافے ہوے ہیں*
*کیا پتہ کس نے یہ رباعی لکھوائی ہے*
*یہ صحیح ہے کہ رفاض نے دسیسہ کاری کرکے دیوان حافظ اور مثنوی شریف میں بہت کچھ الحاقات کردیئے ہیں*
*حضرت شیخ محقق کی اس وقت تک پچیس تصانیف کا مطالعہ کرچکا ہوں کہیں بھی اس رباعی کا ذکر نہیں ہے*
*واللہ اعلم بـالصـواب*
*📚فــتــــاوی شـــارح بــخــــاری جـلــد دوم ص٢٠٤*
*٣ محرم الحرام ١٤٤٠ ہجری مطابق ١٤ ستمبر ٢٠١٨ بروز جمعہ*
✅✅✅✅✅✅✅✅✅✅✅
*✍🏼ازقـــــلــم حضـــرت علامــــہ ومولانـــا*
*محمـــد اسمــاعیـل خـان امجـدی صاحـب*
*قبلــــہ مدظلــــہ العـــالــٰـی والنـــــورانــــی*
*دارالـــعـلـــــــــوم شـہـیــــــــداعـظــــــــــم*
*دولـھـــــــاپورضـلـــــع گـونــــــڈہ یـوپــــی*
✳️برکاتی عفی عنہ❇️:
"شاہ است حسین، بادشاہ است حسین" کس کی رباعی ہے؟
یہ اشعار (شاہ است حسین، بادشاہ است حسین... الخ) کثرت سے پڑھے جاتے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی رباعی ہے-
صرف مشہور ہونے کی بنا پر کسی بات کو کسی کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہے اور اس رباعی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، چناں چہ:
خلیفۂ حضور مفتئ اعظمِ ہند، شارح بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس رباعی کے متعلق لکھتے ہیں کہ حتی الامکان چھان بین کے باوجود یہ نتیجہ نکلا کہ حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ یا ان کے سلسلے کے بزرگوں یا ہندستان کے معتمد مصنفین کی تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں- مقررین اسے حضور خواجہ غریب نواز کی طرف منسوب کرتے ہیں؛ مَیں نے ان سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے تو اب تک کوئی بھی اس کی سند پیش نہیں کر سکا- کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا تو کسی نے کسی واعظ کا حوالہ دیا- حد یہ ہے کہ حضور خواجہ غریب نواز کی طرف ایک دیوان منسوب ہے اور اس میں بھی یہ رباعی نہیں- اب تک یہ ثابت نہیں کہ رباعی حضور خواجہ غریب نواز کی ہے-
(ملخصاً: فتاوی شارح بخاری، ج2، ص204، دائرۃ البرکات گھوسی)
حضرت علامہ مفتی فیض محمد قادری مصباحی صاحب (فتاوی مرکز تربیت افتا میں) ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ اشعار حضور خواجہ غریب نواز کے ہیں، یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن اس کا مفہوم درست ہے-
(انظر: فتاوی مرکز تربیت افتا، ج2، ص623، فقیہ ملت اکیڈمی اوجھا گنج)
حضرت علامہ مفتی محمد مقصود عالم صاحب قبلہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ اشعار حضور خواجہ اجمیری کے ہیں یا نہیں لیکن اس کی صحت (یعنی اس کے صحیح ہونے میں) کسی کا اختلاف نہیں؛ مقبولیت بھی کافی ہے اور شہرت کی بنیاد پر سلطان الہند علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرنا بھی درست ہے-
("تاج الشریعہ لقب کس کا؟"، ص8)
مفتی مقصود صاحب قبلہ کے اس جملے سے مجھے اتفاق نہیں کہ "شہرت کی بنیاد پر سلطان الہند کی طرف منسوب کرنا بھی درست ہے" کیوں کہ مشہور ہونا تو دور کی بات ہے، بہ قول حضرت عبدالعزیز رحمہ اللہ کسی امام سے منسوب کسی مسئلے کا ایک یا ہزار کتاب میں پایا جانا بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ قول واقعی ان ہی کا قول ہے-
(انظر: الابریز من کلام سیدی عبدالعزیز، ص430، دار صادر بیروت؛ بہ حوالہ تحریرات علامہ لقمان شاہد حفظہ اللہ)
اسے لکھنے کے بعد علامہ لقمان شاہد صاحب قبلہ لکھتے ہیں کہ ہمارے وہ خطبا و واعظین جو "ہر بات" پر یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ فلاں فلاں کتاب میں ہے، فلاں فلاں نے لکھا ہے، انھیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے-
بہت ساری ایسی باتیں بھی ہیں جو بہت ساری کتابوں میں ہونے کے باوجود، وجود نہیں رکھتیں- اس لیے علم و تحقیق کا دامن تھامے رکھنے میں ہی عافیت ہے-
میں کہتا ہوں کہ اس رباعی کو پڑھا جائے لیکن اسے حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی طرف منسوب نہ کیا جائے-
No comments:
Post a Comment